Friday, September 07, 2012

میں مرنے کیلئے تیار ہوں

میں مرنے کیلئے تیار ہوں

بابوسر  پاس میں روکے جانے والی بس پر اگر میرا بھائی بیٹھا ہوتا تو شاید ۔شاید نہیں بلکہ یقیناً طالبان کی گولیوں کا نشانہ بنتا۔ میں یا میرے خاندان کا کوئی فردشیعہ نہیں لیکن میری والدہ کی خواہش پر ہم تمام بھائیوں کے ناموں کا دوسرا حصہ علی ہے۔ میرے بڑے بھائی کا پورا نام حیدر علی ہے۔یہ سوچ کر کہ وہ بھی شناختی کارڈ میں درج نام کی وجہ سے بس سے اتارا جاتا اور طالبانکی گولیوں کا نشانہ بنتا میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں خوش ہوں کہ میرا  بڑا بھائی مملکتِ خدادادِ پاکستان کو کچھ سال پہلے ہی چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ وہ اب جہاں ہے وہاں کم از کم اسے کوئی شناختی کارڈ پڑھ کر شیعہ ہونے کہ شبے میں گولیوں سے بھونے گا نہیں۔


 مجھے سخت غصۂ ہے ۔ غصۂ اور رنج اور غم بھی۔ اپنے پاکستانی ہونے پر اور پاکستان کے ایسے ہونے پر۔  
 مجھےلفظوں کی تلاش ہے جو میرے غصے اور غم کا ماتم کر سکیں۔ کیونکہ اب ہم صر ف ماتم ہی کر سکتے ہیں اور ممکن ہے کچھ عرصے بعد وہ بھی نہیں۔ 

 کیا اس ملک میں احمدی ، شیعہ ، مسیحی عوام کی حیثیت بس اب کیڑوں مکوڑوں کی طرح رہ گئ ہے۔ ہمیں مذہبی اقلیتیں تو شاید کبھی بھی پسند نہ تھیںلیکن کیا اب ہم شہری برابری کہ اس ڈھکوسلے کو جسے ہم آئینِ پاکستان کہتے ہیں اب ایک دھوکا بھی نہیں رہنے دینا چاہتے۔
 کیا اب ہم صر ف اس صورت ہی مطئن ہو سکتے ہیں کہ ایک گیارہ سالہ ذہنی طور پر معذور بچی کو پھانسی کہ پھندے تک پہنچا دیں۔ ایک ذہنی معذور دین کی شان میں کیا گستاخی کر سکتا ہے۔ ایک گیارہ سال کی بچی کیا گستاخی کر سکتی ہے۔ کیااحمدی اپنے گھرکی چوکھٹ پر ’محمّد‘ بھی نہیں لکھوا سکتے ۔ ان سب کا قصور کیا ہے ۔ کیا صرف یہی کہ یہ سانس لیتے ہیں؟ چلیں مسیح تو مسلمان نہیں اور احمدیوں کو تو ہم نے ایک عرصے سے اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے۔ لیکن شیعانِ علی کا قصور کیا ہے؟ کب تک شیعانِ یزید ،شیعانِ حسین کو کربلاکی سزا دیں گے؟کتنے شیعہ ماریں گے کہ حسین کہ گناہ دھل جائیں ؟ کتنے سر کٹیں کہ بدر کا بدلاچکایا جائے ۔حسین کاقصور کیا تھا؟ اپنے زمانے کہ جابر کیخلاف عَلمِ حق بلند کیا۔ کیا آ ج اسلام کہ اس قلعہ میں شیعانِ علی کہ حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ۔کیا کوئی نہیں رہ گیا جو کہ سکے کہ ہم گیارہ سال کی بچی کو الزام دے کر دین کو مظبوط نہیں کمزور کر رہے ہیں۔ کیا ہم احمدیوں کہ کیڑے مکوڑوں کی طرح قتل ہونے پر ہمیشہ خاموش رہیں گے۔ کیا اب ہم ان تمام  ’حادثات ‘ پر صرف اندر ہی اندر سے کڑھ کر اور ہر روز تھوڑا تھوڑا مر کر ہی زندہ رہیں گے؟

میں سسک سسک کر یا تھوڑا تھوڑا کرکہ مرنا نہیں چاہتا ۔ میں ایک دفع مرنا چاہتا ہوں مکمل طور پر ۔اس احساس کہ ساتھ کہ میں مکمل طور پر زندہ ہوں۔   

میں آج بہ بانگِ دْہل کہنا چاہتا ہوں کہ میں شیعانِ علی کیساتھ ہوں، میں شیعانِ مسیح ہوں، میں شیعانِ احمدی ہوں اور میں شیعانِ یزید کے ہاتھوں مرنے کیلئے تیار ہوں۔ 

1 comment:

  1. Well written, buddy. Magar jab tak humaray mulk mein se jahalat khatam nahee ho gee aur mullah wagheira apnay paison bananay kay chakron mein humaree jahil awam ko brainwash aur bewaqoof banana nahee choray gain, humaray mulk ka kuch naheen honay wala. Yeh tau sirf humaray maslon ka aik hissa hai, kyounkay Pakistan 18 karore aur maslon mein phana howa hai.

    ReplyDelete